Latest

Thursday, 31 July 2014

ملیریا کے مخصوص جراثیم جنوبی ایشیائی ممالک سے باہر پھیل سکتے ہیں

محققین کا کہنا ہے کہ ملیریا پھیلانے والے وہ جراثیم جن پر دوا آرٹمسنن کا اثر نہیں ہوتا، جنوب ایشیائی خطے میں سرحدی علاقوں تک پہنچ گئے ہیں جس کی وجہ سے اس بیماری کے عدم پھیلاؤ کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
کمبوڈیا، برما (مینمار)، تھائی لینڈ اور ویتنام میں ہزاروں مریضوں پر کیے گئے ٹیسٹوں سے پتا چلا ہے کہ ان میں ملیریا کے وہ جراثیم موجود ہیں جن پر آرٹمسنن کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
دوا آرٹمسنن ملیریا سے بچاؤ کے لیے دنیا کی مؤصر ترین ادویات میں سے ایک ہے۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کا کہنا ہے کہ کسی مریض میں جراثیم کی ابتدائی تشخیص کی صورت میں ملیریا شکن ادویات کا دو گنا استعمال اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے۔

کمبوڈیا کے کچھ علاقوں میں پہلی بار دو ہزار آٹھ میں پتہ چلا تھا کہ ملیریا کے مریضوں پر اس کے لیے تیار کی گئی خاص دوا کا اثر نہیں ہوتا ہے اور تب سے یہ وائرس جنوب مشرقی ایشیاء کے دیگر علاقوں تک پھیل گیا ہے۔
نئی ویکسین
دوسری جانب ماہرین نے عندیہ دیا ہے کہ آئندہ سال ملیریا کے تدارک کے لیے اپنی نوعیت کی پہلی ویکسین منظور کی جا سکتی ہے۔
ایک طبی جریدے پلاس میڈیسن میں شائع ہونے والے مضمون میں، محققین نے، ملیریا کے لیے بنائی گئی ویکسین آر ٹی ایس، ایس کو خاصا کارآمد قرار دیا ہے۔
ابتدائی تحقیق میں اسی فیصد کامیاب نتیجے پر، دوا ساز کمپنی، گلیکسو سمِتھ کلائین نے یورپی میڈیسن اتھارٹی کو درخواست دی ہے کہ ملیریا کی آر ٹی ایس، ایس ویکسین کو، بین الاقوامی سطح پر استعمال کی اجازت دی جائے۔
یہ اِس نہج تک پہنچنے والی پہلی ملیریا کی ویکسین ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ دو ہزار پندرہ تک اِس کے استعمال کی اجازت دے دی جائے گی۔
اس ویکسین کی متعدد افریقی ممالک میں ٹیسٹنگ کی گئی جس میں 1500 نومولود اور بچے شامل تھے۔
اٹھارہ ماہ کے بعد جب نتائج جمع کیے گئے تو محققین کو معلوم ہوا کہ بچوں میں ملیریا کی شرح تقریباً نصف ہوگئی۔
"ملیریا پر تحقیق کی راہیں لاشوں سے بھری پڑی ہیں اور ویکسینیں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔ اس مرحلے تک پہنچنا انتہائی حوصلہ مند ہے۔"
اس کے علاوہ نومولود بچوں میں متاثرہ بچوں کی تعداد میں ایک چوتھائی کمی آئی۔
اگرچہ اس ویکسین کا اثر وقت کے ساتھ قدرے کم ہوتا جاتا ہے تاہم رپورٹ کے مطابق ایسے علاقوں میں جہاں یہ بیماری انتہائی شدید مسئلہ بن چکی ہے، وہاں یہ ویکسین بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
لندن کی سینٹ جارج یونیورسٹی کے پروفیسر سنجیوو کرشنا اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے تاہم انھوں نے اس کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی اہم پیش رفت اور ملیریا کے خلاف ہماری کوششوں میں اہم قدم ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ملیریا پر تحقیق کی راہیں لاشوں سے بھری پڑی ہیں اور ویکسینیں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔ اس مرحلے تک پہنچنا انتہائی حوصلہ مند ہے۔
ملیریا کے دنیا بھر میں لاکھوں مریض ہیں اور ہر سال اس کی وجہ سے آٹھ لاکھ اموات ہوتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment